1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان میں تیار کردہ پہلی ہائبرڈ الیکٹرک کار کی لانچنگ

20 دسمبر 2023

ٹویوٹا کراس کے تیار کنندگان کا کہنا ہے کہ اس ماحول دوست کار کی تیاری سے گاڑیوں کی مقامی صنعت کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا۔ اس سے قبل پاکستان میں ہائبرڈ کاریں مکمل طور پردرآمد کی جاتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/4aPbf
Lahore Pakistan Autos
تصویر: The Passage

پاکستان میں بنائی جانے والی پہلی ہائبرڈ الیکٹرک کار کو با ضابطہ طور پر لانچ کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب ملکی کار انڈسٹری بدترین بحران کا شکار ہے، گاڑیوں کی ڈیماند گر چکی ہے، بڑی کار ساز کمپنیاں تواتر کے ساتھ اپنے کارخانے بند کرتی آئی ہیں اور کاروں کے پرزے بنانے والی مقامی کمپنیوں سے ورکرز کی چھانٹی کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی نے بتایا کہ اس کار کی تیاری کا عمل اس وقت شروع ہوا تھا جب مارکیٹ کے حالات بہتر تھے۔'' اب اس کار کی لانچ کا فیصلہ ہمارے دیرپا منصوبے کا حصہ ہے ہم سمجھتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کا معاشی بحران ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، اس نے ختم ہو جانا ہے اور جنوری کے مہینے سے کار سیکٹر میں بھی بہتری کا آغاز ہونے کی امید ہے‘‘

Lahore Pakistan Autos
ٹویوٹا کراس کے نام سے دو طرح کی ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں بنائی گئی ہیں، جن کی قیمت چورانوے سے لے کر ساڑھے اٹھانوے لاکھ روپے ہےتصویر: The Passage

 ''ٹویوٹا کراس‘‘کے نام سے متعارف کرائی جانے والی یہ کار انڈس موٹرز نے تیار کی ہے، اس سے پہلے ملک میں ہائبرڈ کاریں یا تو مکمل طور پر امپورٹ کی جاتی تھیں یا پھر ان کو بیرون ملک سے لانے کے بعد مقامی طور پر صرف اسمبل کیا جاتا تھا۔ ٹویوٹا کراس کا تقریباً پچاس فیصد حصہ مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں علی جمالی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک سو فی صد گاڑی اپنے ملک میں تیار نہیں کرتا۔ ان کے مطابق وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ پرزے مقامی طور پر بنانا چاہتے ہیں لیکن ملک میں اس حوالے سے درکار خام مال موجود نہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ  مثال کے طور پر ملک میں اسٹیل کی کوئی ایسی انڈسٹری نہیں، جو کاروں کی باڈی کی تیاری میں استعمال ہونے والی فولادی چادریں تیار کر سکے، اس لیے انہیں باہر سے امپورٹ کیا جا تا ہے۔

’کاروں کے بغير اليکٹرانک گاڑيوں کی پاليسی، جيسے دولہا کے بغير شادی‘

 انہوں نے مزید کہا، ''ہم نے مقامی پرزوں کے استعمال سے ناصرف مقامی صنعتوں کو فائدہ پہنچایا ہےبلکہ ملک کا قیمتی زر مبادلہ بھی بچا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ماحول دوست گاڑی کی تیاری سے فضائی آلودگی کم کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی‘‘

خام مال کی فراہمی ضروری

علی جمالی کے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں کاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی فراہمی کے لیے مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ٹویوٹا کراس کے نام سے دو طرح کی ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں بنائی گئی ہیں، جن کی قیمت چورانوے سے لے کر ساڑھے اٹھانوے لاکھ  روپے ہے۔اس گاڑی کی فروخت یکم جنوری دو ہزار چوبیس سے شروع ہو رہی ہے۔

انگریزی اخبار دی نیوز کے کامرس ایڈیٹر منصور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گاڑیوں کے پرزے بنانے والی پاکستانی کمپنیوں کی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسسریز مینوفیکچررز(پاپام) کے اعدادوشمار کے مطابق چند سال پہلے پاکستان میں سالانہ تیار ہونے والی گاڑیوں کی کل تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی لیکن اب ملک میں اس کی نصف تعداد سے بھی کم گاڑیاں بن رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں منصور احمد کا کہنا تھا کہ ٹویوٹا کراس کی خاص بات یہ ہے اسے پچاس فیصد پاکستانی پرزوں کے ساتھ پاکستان میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب کمپنیاں کاریں بنانے، اسمبل کرنے یا ان کی امپورٹ میں مصروف ہیں۔ جبکہ کاروں کے پرزے بنانے والی کمپنیوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔

Lahore Pakistan Autos
سی ای او انڈس موٹرز اور چیف انجینئر ٹویوٹا موٹر کارپوریشن مسٹر یاسوشی یوڈا لانچنگ تقریب میںتصویر: The Passage

ماحول دوست کار 

گاڑیوں کی صنعت پر نگاہ رکھنے والے ایک پاکستانی ماہر احمد جہانگیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹویوٹا کراس کی لانچ پاکستان میں ماحول دوست کاروں کی مینوفیکچرنگ کا دروازہ کھولنے کا باعث بنے گی اور دیگر کمپنیاں بھی اس راستے کی پیروی کریں گی۔ ان کے خیال میں ہائبرڈ الیکٹرک  گاڑیوں کی بیٹریاں تو خود بخود کار کے ساتھ چارج ہوتی رہتی ہیں لیکن الیکٹرک گاڑیوں کو چارج کرنے کے لئے ملک میں انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ایک تشویش ناک امر ہے۔

 ان کے خیال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ والے ملک میں اگر تین لاکھ ایسی گاڑیاں بن جائیں تو نیشنل گرڈ پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ احمد جہانگیر نے تجویز پیش کی کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو فیول اسٹیشنز پر سولر بجلی سٹور کرکے گاڑیاں چارج کرنے والے موبائل کنٹینرز کے آئیڈیے کی طرف آنا ہوگا تاکہ نیشنل گرڈ پر دباؤ نہ پڑے۔

 یاد رہے پاکستان پہلے ہی الیکٹرک کاریں بنانے کے لئے دو چینی کمپنیوں کو لائسنس جاری کر چکا ہے۔

انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی جمالی کا کہنا تھا ، ''ملک میں کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو قابوں میں رکھنے کے لیے محدود مقدار میں گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت ہے، فی الحال زیادہ گاڑیاں بننے کی صورت میں زرمبادلہ کے زخائر پر دباؤ آ سکتا ہے اس لیے ڈالر پر دباؤ روکنے کے لئے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

 بڑے کار ساز اداروں کی جانب سے  کم قیمت گاڑیاں تیار نہ کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں علی جمالی کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کے جو پرزے  باہر سے امپورٹ کئے جاتے ہیں ان کی ادائیگی ڈالرز میں کرنا پڑتی ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے گاڑیوں کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، ان کے بقول گاڑیوں کی قیمت میں کافی زیادہ حصہ حکومتی ٹیکسوں کا بھی ہوتا ہے ۔ انہوں نےاس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''فارچونر نامی ہماری گاڑی کی قیمت اسی لاکھ کے قریب ہے لیکن حکومتی ٹیکس ملا کر یہ قیمت دو کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ اسی طرح انڈسٹری کے چھوٹے پیداواری سکیل کی وجہ سے بھی گاڑیوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ ‘‘

گاڑیوں کے پرزے بنانے والی ایک کمپنی کے مالک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گاڑی عام طور پر امیر آدمی کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر بنا کر غریب عوام کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرے۔

اب چليں گی ہوا سے کاريں