1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالِ مفت دلِ بے رحم

28 مارچ 2024

رزق کی قدر کرنا تو کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں جو ہم کسی تکنیکی ترقی کے محتاج ہوں۔ اگر اس کا تعلق امیری غریبی سے ہے تو اس صورت میں مزید احساس ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4e0ef
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

گزشتہ ماہ جرمنی کے ایک علاقائی فیلمی سینٹر کے زیر اہتمام خواتین کے لیے مخصوص محفل میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہ محفل خاص طور پر گردو نواح  کے غیر ملکی مہاجر گھرانوں کی خواتین کو سماجی حلقہ وسیع کرنے اور تفریح کا موقع دینے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ توقع کے مطابق خواتین کی اکثریت مسلمان  تھی اس لیے پردے کا خاص اہتمام کیا گیا. یقینی بنایا گیا تھا کہ کہ اگر ماؤں کے ساتھ بچے بھی شرکت کریں تاہم چھ سال سے زائد عمر کے لڑکے  شامل نہ ہوں۔ کھڑکیاں بھی ایسے ڈھانپی گئی تھیں کہ باہر سے کچھ نظر نہ آسکے تاکہ حجابی خواتین بھی پہناوے کا آزادانہ انتخاب کر سکیں۔

 اس تقریب میں شرکت کے لیے نہ کوئی داخلی فیس تھی اور نہ ہی آنے جانے کی کوئی پابندی، دیکھتے ہی دیکھتے ہال افغانی، شامی، عراقی، افریقی اور ایرانی خواتین سے بھر گیا۔ ان میں ہر طبقے کی خواتین شامل تھیں۔ پڑھی لکھی، نوکری پیشہ، کاروباری گھرانوں سے، گھریلو خواتین اور وہ بھی جو جرمنی میں پناہ لینے کے بعد مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں۔ موسیقی کا بھی اہتمام تھا اور انتظامیہ کی جرمن خواتین ہر ملک کے گانے شامل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ اشیائے خرد و نوش انتظامیہ نے فراہم کر رکھی تھیں اور کچھ خواتین بھی ایک ایک ڈش بنا کر لائی  تھیں۔ اس طرح ایک بوفے تیار ہو گیا تھا۔

 تقریب کے آغاز سے ہی ایک خوشی اور جشن کا منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ سب ہی یا خوش گپیوں میں مصروف تھے یا موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ رنگ برنگے جھلملاتے لباس اور زیور جرمنی میں ایک غیر معمولی سماں باندھ رہے تھے۔

 کچھ دیر میں جب  کھانے کی باری آئی اور بوفے کا آغاز ہوا تو سارا منظر ہی پلٹ گیا۔ ساری تقریب جو ایک ترتیب کے تحت  ہو رہی تھی یکایک شور شرابے اور بے ہنگم مناظر پیش کرنے لگی۔

 پلیٹیں بھر بھر کر کھانا ہر طرف ضائع ہوتا نظر آرہا تھا۔ انتظامیہ  کی خواتین بوکھلائی ہوئی نظر آرہی تھیں اور رزق کی وہ بے حرمتی ہو رہی تھی کہ احساس ندامت چاروں طرف سے گھیرے چلا جارہا تھا۔ منتظمین خواتین بار بار یادہانی کرواتی رہیں کہ استعمال شدہ برتن ایک طرف رکھ دیں مگر کوئی کان نہیں دھر رہا تھا۔ جہاں کھانا چنا گیا تھا اس میز کے عین بیچ میں کھانے سے بھری ہوئی پلیٹیں اور استعمال شده گلاس رکھے جار ہے تھے۔ فیملی سینٹر کی خواتین صفائی کا انتظام کرتیں اور چند لمحوں میں پھر وہی حشر نظر آتا۔

محفل کے بعد انتظامیہ نے کافی دکھ کا اظہار کیا کہ ہمارے اسی فیملی سینٹر کے گنڈرگارٹن کے بچے بھی پلیٹ میں صرف حسب ضرورت لیتے ہیں اور سلیقے سے گلاس اور استعمال شدہ پلیٹ سنبھالتے ہیں تو یہ سب تو عاقل بالغ خواتین تھیں۔ اتنا رزق ضائع ہوا اور تقریب میں بد نظمی الگ پیدا ہوئی۔  میں نے کم از کم جرمنی میں یہ منظر پہلی دفعہ دیکھا تھا مگر منتظمین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اور افسوس میں شامل ہوتے ہوئے  پاکستان میں شادیوں سے جنازوں تک پر دیکھے جانے والے مناظر آنکھوں میں گھومنے لگے اور میں دعاگو رہی کہ کوئی آنکھوں کو پڑھ نہ سکے۔

 اس تجربے نے سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم اپنی مشرقی اور مذہبی روایات پر اتنا فخر کرنے والے لوگ اس بنیادی قدر میں اس شرمناک حد تک پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ رزق کی قدر کرنا تو کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں جو ہم کسی تکنیکی ترقی کے محتاج ہوں۔ اگر اس کا تعلق امیری غریبی سے ہے تو اس صورت میں مزید احساس ہونا چاہیے۔ اگر تعلق تعلیم سے ہے تو نہ تو اس محفل کی شرکا ان پڑھ تھیں اور نہ ہی ہمارے اپنے ملک میں شادی کے سب مہمان ان پڑھ ہوتے ہیں۔  اس کا تعلق مذہب سے تو قطعاً نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا کا کوئی مذہب ایسے رزق ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہاں بچہ بچہ کھانا کھانے کے بعد سب سمیٹ سکتا ہے تو ہمارے یہاں یہ اتنی پیچیدہ بات کیوں تصور ہوتی ہے؟ شاید اس سب کا تعلق صرف اور صرف تربیت سے ہے۔ جہاں ہم اکثر گھریلو ملازمین پر اتنا انحصار کر جاتے ہیں کہ بچے کا خود اپنے برتن سمبھالنا سیکھانا بھول ہی جاتے ہیں۔  بچے تو وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے بڑوں کو تقریبات پر رزق ضائع کرنا دیکھیں گے تو يقيناً اسے جائز ہی سمجھیں گے۔

بھوک اور پیٹ کی گنجائش مدنظر رکھے بغیر پلیٹیں بھرتا دیکھیں گے تو آخر میں کھانے کا بچ جانا اور پھر پھینکا جانا انہیں تکلیف نہیں دے گا۔ اگر یہاں چھوٹے سے بچے کو معلوم ہے کہ کھانا محدود مقدار میں پلیٹ میں لینا ہے کیونکہ دوبارہ بھی لیا جاسکتا ہے اور کھانے کے بعد برتن ڈش واشر میں رکھنے ہیں تو اتنا تو یقینا سب ہی کر سکتے ہیں۔

 ظاہر ہے ہر طرح کے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں کوئی بھی قوم سوفیصد ایک ہی روایت پر نہیں چلتی۔ اسی طرح پاکستان، افغانستان، عراق، ایران اور شام ان سب ملکوں میں بھی بہت سے لوگ سلیقے اور ترتیب سے یہ معاملات کرتے ہیں مگر بدقستمی سے اکثریت یہی عکاسی کرتی ہے جو میں نے اس محفل میں دیکھا۔ یہ موضوع بہت سادہ اور آسان ہے مگر اس میں بے پرواہی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ہمیں مغرب سے لاکھ شکایات ہوں مگر اچھی بات تو کسی سے بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ یہی تربیت ہر معاملے میں احتیاط برتنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اپنے حق سے بڑھ کر کچھ بھی سیمٹنا ایمانداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہی روایات اور اقدار ایک قوم کی عکاس ہیں اور ہمیں اپنی اگلی نسل کو ہر معاملے میں اپنے سے زیادہ منظم اور مخلص بنانا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔