1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات، برطانوی وزیر پرمقدمہ

28 مارچ 2024

برطانیہ کے ایک وزیر کو افغانستان میں برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار پر سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے

https://p.dw.com/p/4eEIf
بی بی سی نے 2022 ء میں رپورٹ کیا کہ ایس اے ایس کے ایک اسکواڈرن نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مشکوک حالات میں کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا، جن میں قیدی اور بچے بھی شامل تھے۔تصویر: Reza Shirmohammadi/AFP/ Getty Images

برطانوی حکومت کے ایک وزیرکو افغانستان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا کرنے والے فوجیوں کا نام ظاہر کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر انہیں قید اور جرمانے یا جرمانے  کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

جانی میرسر جو سابقہ برطانوی فوجیوں سے متعلق امور کے وزیر ہیں، نے ان متعدد فوجی افسروں  کی شناخت ظاہرکرنے سے انکار کیا ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر قتل اور بعد ازاں اُسے چھپانے کے بارے میں خود انہیں بتایا تھا۔

'چین خاموشی سے افغانستان میں اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے'

برطانوی وزیر اس حوالے سے بنائے گئے کمیشن اور عوامی انکوائری کے سامنے ان فوجیوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے جن کے بارے  میں یہ پتہ لگایا جارہا ہے کہ آیا  ایک یونٹ نے جنگ لڑنے کے قابل عمر والے مردوں یعنی اٹھارہ تا چالیس برس کی عمر کے مردوں کے ایک گروپ کو سزائے موت دی تھی اور بعد ازاں اس واقعے کو دبا دیا گیا تھا یا اس کی پردہ پوشی کی گئی تھی۔ گرچہ ان مردوں کے اس گروپ کو، دوہزار دس تا دوہزارتیرہ کے درمیان جنگ زدہ ملک میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

 13 مارچ کو ایم پی سیکشن 2  برطانیہ کے انکوائریز ایکٹ 2005 ء کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ نوٹس میں 42 سالہ میرسر سے کہا گیا کہ وہ پانچ اپریل شام چار بجے تک کمیشن کو ان سابقہ فوجیوں کے ناموں پر مشتمل اپنا بیان درج کروائیں۔ اگر کسی معقول عذر کے بغیر حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو اس کی سزا قید اور جرمانہ یا جرمانہ ہو سکتی ہے۔ 

Großbritannien Evakuierungsflüge vom Flughafen Kabul eingestellt
برطانیہ کے ایک وزیر کو افغانستان میں برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار پر سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہےتصویر: Jonathan Gifford/Ministry of Defence via AP/picture alliance

تحقیقات کے چیئرمین، چارلس ہیڈن کیو کے دستخط شدہ ریمارکس میں مزید کہا گیا ہے کہ لندن کی ہائی کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کے ذریعے اس حکم کو نافذ کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں میرسر کو ''قید‘‘ ہو سکتی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ میرسر کی رضامندی کے بغیر قانونی ٹیم کے اراکین کے علاوہ کسی کے سامنے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں مکمل رازداری رکھی جائے گی ۔

'امریکہ کے ساتھ جنگ ابھی جاری ہے'، طالبان سپریم لیڈر

اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے میرسر کو 3 اپریل تک کا وقت دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ جب انہوں نے انکوائری کو ثبوت دیے تب بھی انہوں نے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا تھا ۔

میرسر نے اسپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے رکن کا نام ظاہر کرنے سے بھی انکار کر دیا جس نے کہا تھا کہ اسے ''ڈراپ ہتھیار‘‘ لے جانے کے لیے کہا گیا تھا - یہ ہتھیار جو ایک ایسے آپریشن میں بروئے کار لایا گیا جو غیر مسلح شخص کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

میرسر نے کہا ، ''ایک چیز جس پر آپ قائم رہ سکتے ہیں وہ ہے آپ کی دیانت داری اور میں ان افراد کے ساتھ ایسا ہی کروں گا۔‘‘

میرسر خود برطانوی فوج کے ایک سابق افسر ہیں جو تین بارافغانستان میں خدمات انجام دینے پر مامور رہے ہیں ۔ وہ 2015 ء سے جنوب مغربی انگلینڈ کے پلائی ماؤتھ میں کنزرویٹیو پارٹی کے ممبر پارلیمان ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جو لوگ مخبری کرتے ہیں انہیں ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں اور وہ کمزور ہوتے ہیں۔ میرسر کے قریبی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جیل جانے کے حوالے سے فکر مند تو ہیں لیکن نام صرف اس صورت میں  ظاہر کریں گے جب ''ذرائع‘‘ انہیں اجازت دیں گے۔

Afghanistan Bildergalerie Aktualisierung
افغان خاندانوں نے برطانیہ کی خصوصی افواج پر افغانستان میں شہریوں کے خلاف ''قتل کی مہم‘‘ چلانے کا الزام لگایا ہے جبکہ وزارت دفاع کے سینئر افسران اور اہلکاروں نے  تحقیقات کو روکنے کی کوشش کی۔تصویر: Ben Shread/RAF/UK Ministry of DeDefence/via REUTERS

وزیر اعظم رشی سونک کے دفتر نے میرسر کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا لیکن کہا کہ ہے کہ لوگوں کو ''یقیناً‘‘ عوامی پوچھ گچھ کی تعمیل کرنی چاہیے۔

افغان خاندانوں نے برطانیہ کی خصوصی افواج پر افغانستان میں شہریوں کے خلاف ''قتل کی مہم‘‘ چلانے کا الزام لگایا ہے جبکہ وزارت دفاع کے سینئر افسران اور اہلکاروں نے  تحقیقات کو روکنے کی کوشش کی۔

طالبان افغانستان میں زیادتیاں بند کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

بی بی سی نے 2022 ء میں رپورٹ کیا کہ ایس اے ایس کے ایک اسکواڈرن نے افغانستان کے چھ ماہ کے دورے کے دوران مشکوک حالات میں کم از کم 54 افراد کو ہلاک کیا، جن میں قیدی اور بچے بھی شامل تھے۔

یہ انکوائری رائل ملٹری پولیس، جو فوج کے اہلکاروں کی پولیسنگ کی ذمہ دار ہے، کی طرف سے کی گئی تھی جو دو تحقیقات کی چھان بین کر رہی ہے ۔

اُدھر 2014 ء میں خصوصی فورسز کی جانب سے دی گئی پھانسیوں کے الزامات کی جانچ کے لیے قائم کردہ ''آپریشن نارتھ مور‘‘  کے تحت کوئی الزامات سامنے نہیں آئے ، جبکہ موت کی سزاؤں میں  بچے بھی شامل تھے۔

تین فوجیوں کو سروس پراسیکیوٹنگ اتھارٹی کے حوالے بھی کیا گیا تھا ، لیکن کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

ف ن/ ک م(اے ایف پی)